کیا یہ دنیا سب کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے؟
کیا یہ ہمیں اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر، ہماری طرف آنے والی سرد و گرم ہواؤں سے بچانے کے لیے ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے؟
اگر ایسا ہوتا، تو آدم علیہ السّلام اور بی بی حوا کے لیے یہ دنیا بطورِ سزا پیش نہ کی جاتی۔
14Please respect copyright.PENANA1cBeQI6SjO
اسی اصول دنیا کے تحت، دنیا کے اصولوں سے لڑنے والا ہماری کہانی کا وہ اہم کردار ہے—جس کا راز آپ پر افشا ہونے والا ہے۔
وہ، جو اپنے دل کی باتوں کو سینے میں چھپانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔
14Please respect copyright.PENANAi00LtPTOBT
کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے، جہاں گرین فلیگ کی مالا جپنے والوں کے نظریات بدلتے دیکھے گئے ہیں۔
14Please respect copyright.PENANAXqugTki7Jd
The only red flag I want in my life is the Turkish flag.
ISTANBUL
14Please respect copyright.PENANALf9J60QEuH
استنبول کی سڑکوں پر چہل قدمی کرتا ہوا ایک ہیولا، ماضی کو بھلانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
وہ اپنے عشق، "ترکی"، کے بولتے لوگوں سے، اُڑتے کبوتروں سے، اور آسمان پر لہراتے ترکی کا سرخ جھنڈا،جنہیں دیکھنا اسکے بچپن کا خواب رہا تھا،آج وہ خیالوں میں گم ہر چیز فراموش کی ہوئی تھی ۔
14Please respect copyright.PENANAqG7OBLeIwq
کچوک چکمجہ جھیل کے کنارے ہلکی ہوا نے درختوں کی ٹہنیوں کو آہستہ آہستہ جھنجھوڑا،
اور پانی پر بننے والے دائرے لمحہ بھر میں مٹنے لگے۔
14Please respect copyright.PENANAvRcZltvZpi
وہ جھیل کے ساتھ ساتھ خاموشی سے چل رہی تھی۔
نہ کوئی جلدی تھی، نہ کوئی ٹھکانا — بس وہ، اور یہ شہر جو اب آشنا سا لگنے لگا تھا۔
14Please respect copyright.PENANAdkSVjv3HKy
جھیل کی سطح پر پڑتی سورج کی آخری کرنیں آنکھوں کو چندھیا رہی تھیں،
مگر وہ نظریں جمائے ان لہروں کو دیکھتی رہی، جیسے کوئی بھولا ہوا خیال پھر سے ذہن کے دریچوں میں دستک دے رہا ہو۔
14Please respect copyright.PENANAJWdf55NpAh
اس کے چہرے پر سکون تھا — وہ سکون جو صرف وہ لوگ جانتے ہیں،
جو درد کو لفظوں میں نہیں، خاموش قدموں میں سمیٹنا سیکھ چکے ہوتے ہیں۔
آج وہ صرف یاد نہیں کر رہی تھی،
بس… خود کو یاد آ رہی تھی۔
وہ درمیانے قد کی لڑکی تھی، جس نے سیاہ کھلا اوور کوٹ پہنا ہوا تھا، جو اس کے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپ رہا تھا۔ سیاہ شرٹ اور سیاہ ٹراؤزر اس کے انداز میں ایک مضبوط، مگر سادہ پیچیدگی کا اضافہ کر رہے تھے۔ پاکٹس میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہوئے، وہ کسی ہیولے کی طرح لگ رہی تھی، جس کی شناخت پر لوگ شک کرتے، جیسے یہ ایک لڑکا ہو یا لڑکی۔ اس کی کیپ نے بالوں کو چھپایا ہوا تھا، اور چہرے پر ماسک اور چشمہ تھا، جس کی وجہ سے اس کا چہرہ اور شخصیت ایک پراسرار گہرائی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ سیاہ اسنییکرز کے ساتھ، بیلٹ میں چھپی گن بھی اس کی خاموش طاقت کا اشارہ تھی۔ ٹراؤزر کی جیبوں میں اس کا فون اور والیٹ تھے، اور اس کے قدموں میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی — بس ایک محفوظ، مکمل اور پر اعتماد انداز۔جیسے ہی جھیل کے کنارے سے واپسی کا راستہ مڑا، فون نے جیب میں ہلکی سی جنبش دی۔
اس نے آہستہ سے جیب میں ہاتھ ڈالا، اسکرین پر نگاہ پڑی—
"Laala Jaan"
نام ابھرتے ہی ہونٹوں پر بے ساختہ مدھم سی مسکراہٹ آگئی۔
14Please respect copyright.PENANAXraKvYCl7M
پیغام صرف اتنا تھا:
"میرا بیٹا باہر کیا کر رہا ہے؟"
14Please respect copyright.PENANAEsAYRmyHOr
اس نے جواب لکھنے کی کوئی جلدی نہیں کی۔
فون کچھ لمحوں کے لیے ہاتھ میں ہی رہا —
جیسے وہ اس ایک جملے کی حدت کو محسوس کرنا چاہتی ہو۔
وہ جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے، اور وہ بھی جانتے تھے کہ وہ کہاں ہے۔
اس کے موبائل میں موجود وہ خاموش ٹریکر،
جس کا اسے کب سے علم تھا —
مگر کبھی ظاہر نہیں کیا۔
14Please respect copyright.PENANAYdRYQ061s1
کیونکہ کبھی کبھی…
فکر جتانے والا تعلق،
اظہار سے زیادہ خاموشی میں خوبصورت لگتا ہے۔
14Please respect copyright.PENANALs0g5xrMPx
فون دوبارہ جیب میں رکھا،
چہرے کی وہ ہلکی سی مسکراہٹ کچھ دیر اور ٹھہری رہی،
پھر وہ اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ گئی —
جیسے کچھ بدلا ہی نہ ہو۔
14Please respect copyright.PENANAMepjHcfwCt
فون کی اسکرین پر “Laala Jaan Calling...” جگمگایا تو وہ لمحے بھر کو رُکی۔
چہرے پر بے اختیار تاثرات دوڑ گئے —
ناراضی، لاڈ، اپنائیت — سب کچھ ایک پل میں سمٹ آیا۔
14Please respect copyright.PENANAEEIfhV1bM1
اس نے کال ریسیو کی، اور بنا کسی سلام یا تمہید کے،
بچوں والی ناراضگی سے، ہلکی سی چیخ مار کر بولی:
"Laaaaalaaa!"
ایسا نہیں تھا کہ وہ واقعی خفا تھی،
نہ ہی مکمل خوش —
بس وہ اُٹھنے والی ناراضی تھی،
جو صرف ان لوگوں کے لیے محفوظ ہوتی ہے
جن سے تعلق دل کے سب سے نرم گوشے سے ہو۔
آواز میں وہ خفا پن چھپا ہوا تھا،
جو محبت کی تہہ میں ڈوبا ہوتا ہے۔
دوسری طرف سے آواز آئی —
شفقت، لاڈ اور انس سے لبریز:
"السلام علیکم... لالا کی جان، لالا کا پیارا بچہ کیا کر رہا تھا باہر؟"
وہ پل بھر کو خاموش رہی،
چہرے پر وہی بچپن جیسی ناراضی کی جھلک،
جس کے نیچے محبت چھپی بیٹھی ہوتی ہے۔
آنکھوں میں ہلکی سی چمک ابھری —
ایسی چمک، جو صرف اپنوں کی آواز پر آتی ہے۔"وعلیکم السلام، لالا..."ایک سوال بار بار پوچھ کر تھکتے نہیں ہیں آپ؟؟
آواز میں شوخی بھی تھی اور لاڈ بھی،
جیسے روز کا معمول ہو —
لالا پوچھیں، اور وہ ہنستے ہوئے پوری رپورٹ سنا دے۔
"چلیے، سن لیں...
فجر پر اُٹھی، نماز پڑھی، واک کی،
ناشتہ کیا، تھوڑی ورکنگ کی،
ایک اچھی سی ٹریڈ لگائی — ہاں، لیکن اسٹاپ لاس لگ گیا تھا!"بٹ اٹس اوکے، جیسے خود کو داد دے رہی ہو
"پھر نو بجے نُصرت اسٹیک ہاؤس گئی،
کام کیا، چار بجے فارغ ہوئی،
اور پھر سیدھی Sarsılmaz شوٹنگ کلب گٔی تھی ۔دماغ فریش ہوا —
اب واک کرتے واپس آ رہی ہوں۔
اب بتائیں، لالا کا پیارا بچہ ٹھیک جا رہا ہے نا؟"
جملے کے آخر میں لاڈ تھا،
مگر لہجے میں اعتماد او بھی —
جیسے وہ ہر چیز خود سنبھالنے والی ہو،
مگر پھر بھی روزانہ کی روٹین
اپنے لالا سے شیئر کرنا اُس کے دل کو بھاتا ہو۔
لالا کی ہنستی ہوئی، مگر پرواہ بھری آواز آئی:
"بس کرو... بریک لے لو، میرا پیارا بچہ۔
آگے میں بتاتا ہوں —
میرا بچہ آج تھوڑا سا اُداس ہے،
اور پچھلے ایک گھنٹے سے گھر جانے کے بجائے
استنبول کی سڑکوں پر یونہی گھوم رہا ہے۔"
وہ پل بھر کو چپ رہی،
پھر جیسے اپنے تاثر کو چھپاتے ہوئے شرارتی لہجے میں بولی:
"اچھا لالا... چھوڑیں،
آپ کی بات ہوئی ہے کیا آدا سائیں سے؟"
لالا نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا:
"ہاں، بات ہوئی تھی۔
وہ ترکی کے بیوگلو علاقے میں ایک میٹنگ کے لیے گیا تھا۔ اس لیے شاید آج کال نہ کر سکے۔
وہ جھیل کے کنارے چلتے ہوئے ہلکے سے مسکرائی، پھر کہا:
مجھے، پتہ ہے
کوئی بات نہیں ، بس خیریت ہو ۔
ns216.73.216.239da2